Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر16

فیصل نے ایمان کو ہر ممکنہ جگہ تلاش کر لیا لیکن وہ اسے ڈھونڈنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔۔۔ 
ایک طرف نور بار بار فیصل سے پوچھ رہی تھی دوسری جانب اسے اماں خیر النساء کا دیا گیا چیلنج بھی پورا کرنا تھا۔۔۔
پانچ دن گزر گئے۔۔۔ان پانچ دنوں میں شاید ہی فیصل دو منٹ کے لیے گھر ٹکا ہو۔۔۔
اپنے ماں باپ کو ابھی اس نے ایمان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔اسے رات دن ایک ہی شخص کی تلاش تھی لیکن اب وہ نا امید ہونے لگا تھا۔۔۔
پھر اچانک اسے اماں کی بات یاد آئی اور اس نے دوبارہ کمر کس لی۔۔۔شام کے چھ بجے تھے۔۔۔وہ بے وجہ روڈ پر چل رہا تھا اس وقت سے کسی شخص سے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔ 
اسے تو بس کسی کو ڈھونڈنا تھا۔۔۔جب تک وہ نہ مل جاتا اسے دنیا کی کسی چیز سے کوئی غرض نہیں تھی۔۔۔ اچانک اس کا فون بجا۔۔۔کامران کی کال تھی۔۔۔
ہیلو کامران کیسے ہو۔۔۔ 
اوئے میری چھوڑ تو بتا واپس آ گیا ہے؟۔۔۔ کیسا رہا؟ 
مطلب؟ اس نے حیرانی سے بس اتنا ہی پوچھا۔۔۔
اس لمحے اس کا جی تو چاہا بول دے کہ میں کوئی یورپ کی سیر کرنے نہیں گیا ہوا تھا۔۔۔
تُو دبئی گیا ہوا تھا نا؟ 
یہ سن کر فیصل کا دماغ گھوم گیا۔۔۔
میں دبئی گیا ہوا تھا؟ 
 کیا ہوا نیند میں ہے کیا؟۔۔۔ اس نے دوبارہ پوچھا۔۔۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ یقیناً کامران کو اس کے ماں باپ نے ہی دبئی کا بتایا ہے۔۔۔
کچھ نہیں۔۔۔ میں تیرے پاس ہی آ رہا ہوں بتاتا ہوں سب۔۔۔
اچھا پھر میں اپنے ہال میں ہوں تو وہیں آ جا۔۔۔اسی بہانے دیکھ بھی لینا۔۔۔
ہمم اوکے۔۔۔
فیصل گھر واپس لوٹا۔۔۔گاڑی نکالی اور اب اس کا رخ واہ کینٹ کی جانب تھا۔۔۔
دو گھنٹے بعد وہ کامران کے پاس موجود تھا۔۔۔
پھر فیصل نے اس کو ساری بات بتائی۔۔۔
اس کے ساتھ جو ہوا وہ سن کر کامران کو بھی دکھ ہوا۔۔۔
پھر کچھ ارد گرد کی باتیں ہوتی رہیں۔۔۔ 
اچھا مجھے ایک ضروری کام ہے۔۔۔تو یہیں رک۔۔۔میں گھر سے ہو کے آتا ہوں۔۔۔ کامران اس سے اجازت لے کر گھر گیا۔۔۔اس کا گھر ہال سے قریب ہی تھا۔۔۔
اسی ہال کے سامنے ایک اور ہال بھی تھا۔۔۔
کچھ دیر بعد فیصل کی نظر پڑی تو اس نے دیکھا وہاں کوئی شادی ہو رہی تھی دلہا دلہن سٹیج پر آتے دکھائی دیے۔۔۔ ایک لمحے کو اسے وہ لڑکی ایمان کی طرح لگی۔۔۔ وہ تھوڑا آگے بڑھا تو اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔۔۔ وہ واقعی ایمان تھی۔۔۔ اس کے ساتھ موجود شخص کو بھی اس نے غور سے دیکھا۔۔۔وہ بس انہیں اپنے بائیں جانب سےہی دیکھ سکتا تھا اس لیے پہچان نہ پایا کہ وہ لڑکا کون ہے مگر اس کا ایک نقش اسے کے دماغ میں بیٹھ گیا۔۔۔
ایمان۔۔۔اس کے منہ سے نکلا اور اس کے بعد وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔۔۔ اس کا سر چکرا گیا۔۔۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ ہوش و حواس سے بے گانہ روڈ کراس کر کے دوسری جانب جانا چاہتا تھا۔۔۔ اس نے یہ بھی نہ دیکھا کہ روڈ پر کوئی بڑی گاڑی بھی آ رہی ہے۔۔۔ ابھی وہ روڈ کے درمیان ہی تھا کہ اسے ایک زوردار ٹکر لگی۔۔۔وہ گھوم کر اسی ہال کے سائن بورڈ سے جا لگا۔۔۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ اس حال میں بھی ایمان کو دیکھ رہا تھا۔۔۔کچھ ہی لمحوں میں اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔۔
___________________________
میں دیکھ رہا ہوں بیگم کہ فیصل جس دن سے آیا ہے پریشان دکھائی دے رہا ہے۔۔۔ شاید یہ واقعہ اس کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے۔۔۔
ایسا نہیں ہے مرزا صاحب۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ خود کو گھر میں محصور کر لیتا باہر نہ نکلتا۔۔۔ لیکن وہ تو گھر میں داخل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔ اس کے دل میں کوئی اور ہی بات ہے جو وہ چھپا رہا ہے۔۔۔
بیگم میں سوچ رہا ہوں کوئی اچھی لڑکی دیکھ کر اس کی شادی کر دیں۔۔۔ممکن ہے اس طرح اس کی پریشانی ، ذہنی دباؤ وغیرہ کم ہو جائے۔۔۔
اچھا ہے۔۔۔میں آج ہی بات کرتی ہوں اس سے۔۔۔ عظمی بیگم نے مسکرا کر کہا۔۔۔
___________________________
یا اللہ آج آپ پلیز میری دعا کو قبول فرما لیں۔۔۔ میں آج صدق دل سے آپ سے دعا کرتی ہوں۔۔۔ میری دوست میری بہن ایمان کو خیر سے واپس لوٹا دیں۔۔۔ یا اللہ سب کچھ پہلے جیسا کر دیں۔۔۔ آپ تو کر سکتے ہیں نا۔۔۔ آپ تو کر سکتے ہیں۔۔۔ مصلے پر بیٹھی زارا کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔
___________________________
ہیلو انکل۔۔۔میں کامران بول رہا ہوں۔۔۔ 
جی جی پہچان لیا بیٹا کیسے ہو؟ 
میں واہ جنرل ہاسپٹل میں ہوں انکل۔۔۔ فیصل کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے آپ فوراً پہنچ جائیے۔۔۔
کیا۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے نا کامران ںیٹے؟  انکل بس ابھی ابھی پہنچے ہیں سر میں چوٹ آئی ہے۔۔۔ آپ جلدی کیجیے۔۔۔
میں پہنچ رہا ہوں۔۔۔یا اللہ خیر۔۔۔ مرزا صاحب کے منہ سے نکلا۔۔۔ اور وہ اپنی بیگم کو بتائے بغیر ہی نکل پڑے۔۔۔
___________________________
مالک۔۔۔میرے بچے سے غلطی ہو گئی۔۔۔ تو اسے معاف فرما دے۔۔۔ اس کو اپنی امان میں لے لے۔۔۔ وہ نادانی میں ایسا کر گزرا۔۔۔ پر اب وہ درست راہ پر چل پڑا ہے اب اس کی حفاظت فرما آمین۔۔۔
___________________________
ایمان۔۔۔فیصل کے منہ سے نکلا۔۔۔
ان کو ہوش آ گیا ہے۔۔۔ یہ اطلاع سنتے ہی شعیب مرزا دوڑتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔۔۔ 
لیکن فیصل کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ انہوں نے دیکھا اس کی ایک مٹھی کھلی تھی دوسری ایسے بند کی ہوئی تھی جیسے کسی کا ہاتھ تھام رکھا ہو۔۔۔
وہ اس کے قریب آئے۔۔۔ 
ایمان۔۔۔کچھ لمحوں بعد دوبارہ اس کے منہ سے نکلا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے آہستہ آنکھیں کھول دیں۔۔۔
خود کو ہاسپٹل میں پا کر وہ حیران تھا۔۔۔ اس کے ذہن میں اب بھی وہی منظر گھوم رہا تھا۔۔۔ اس نے اچانک اٹھنے کی کوشش کی لیکن سر میں چوٹ لگنے کی وجہ سے وہ اٹھ نہ سکا اور چکرا کر گر گیا۔۔۔ مرزا صاحب فوراً آگے بڑھے اور اس کو لیٹے رہنے کا کہا۔۔۔ وہ چلی جائے گی۔۔۔ مجھے جانے دیں۔۔۔ کون چلی جائے گی۔۔۔ کہاں چلی جائے گی۔۔۔
میری ایمان چلی جائے گی۔۔۔ کوئی اور لے جائے گا اسے۔۔۔ مجھے جانا ہے۔۔۔ اس نے دوبارہ اٹھنے کی کوشش کی اور اس دفعہ وہ کامیاب بھی ہو گیا۔۔۔
 بیٹا پلیز۔۔۔ خود کو سنبھالو۔۔۔تمہارے سر میں چوٹ لگی ہے۔۔۔تمہیں اس وقت آرام کی ضرورت ہے۔۔۔
فیصل کو اندازہ بھی نہ تھا کہ اسے وہاں سے ہاسپٹل آئے تین گھنٹے ہو چکے ہیں۔۔۔
مرزا صاحب کی بات سن کر اس نے سر پر ہاتھ پھیرا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے سر پر پٹی بندھی تھی۔۔۔
پھر کامران اندر داخل ہوا اور ساری کہانی بیان کی۔۔۔ 
اس نے بتایا کہ وہ گھر سے واپس ہال آ ہی رہا تھا کہ فیصل کو گرا ہوا پایا۔۔۔ 
وہ تو شکر ہے کہ میں وقت پر پہنچ گیا تھا وہاں۔۔۔
فیصل کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لیتے ہوئے وہ بولا۔۔۔
کامران نے بہت کوشش کی کہ اسے باتوں میں لگا لے مگر فیصل کا ذہن کسی طور اس جگہ سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ وہ مسلسل خاموش تھا۔۔۔

   1
0 Comments